Post Top Ad




نومبر 23, 2023

قصص الانبیاء: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام

 

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام  کی جائے پیدائش، بیت لحم، فلسطین

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی آمد کی بشارت دی۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ اور جب عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے کہا’’ اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمدؐ ہوگا، بشارت سُناتا ہوں‘‘( سورۃ الصف 6)۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد تقریباً چھے سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آقا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن پر آخری آسمانی کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر انجیل نازل فرمائی گئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت اور نور تھا‘‘ (سورۃ المائدہ 46)۔

ابنِ جریر نے تحریر کیا ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر جب انجیل نازل ہوئی، تو آپؑ کی عُمر مبارک تیس سال تھی اور نبوّت کے تین سال بعد ،یعنی تینتیس برس کی عُمر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا‘‘ (ابنِ کثیر)۔

قرآنِ کریم میں تذکرہ

قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے۔26 مقامات پر عیسیٰ علیہ السّلام،23 مقامات پر ابنِ مریمؑ، 11 جگہوں پر مسیح ؑاور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورہ ’’سورۂ مریم‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ کے نام پر ہے، جس میں حضرت مریمؑ بنتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قصّہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔

اس کے علاوہ، قرآنِ کریم کی تیسری سورہ، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریمؑ کے والد ماجد کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریمؑ کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی پانچویں سورہ، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریوں نے کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی، جس پر آسمان سے مآئدہ یعنی کھانے کے خوان کا نزول ہوا۔

بیٹے کی بشارت

سورۂ مریم کی آیات 16 سے 35 کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا ذکرفرمایا گیا ہے۔ حضرت مریمؑ بیتُ المقدِس سے متصل حجرے میں قیام پذیر تھیں۔

ایک دن وہ مسجد کے مشرقی کونے میں عبادت یا کسی اور مقصد سے تشریف لے گئیں اور پردہ کر لیا۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ وہ حسبِ عادت یک سوئی کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہونے کے لیے حجرے کے مشرقی جانب کسی گوشے میں تشریف لے گئیں۔

حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ نصاریٰ نے جو مشرق کی جانب اپنا قبلہ بنایا اور اُس جانب کی بڑی تعظیم کرتے ہیں، اُس کی یہی وجہ ہے۔ حضرت مریمؑ اُس گوشے میں تنہا تھیں کہ اچانک حضرت جبرائیل امینؑ انسانی شکل میں تشریف لائے۔ حضرت مریمؑ نے ایک اجنبی شخص کو یوں اپنے قریب دیکھا، تو گھبرا گئیں اور کہنے لگیں’’مَیں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں۔

اگر تُو اللّٰہ سے ڈرتا ہے، تو یہاں سے چلا جا۔‘‘ حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا’’ تم مجھ سے ڈرو نہیں۔ مَیں تو پروردگار کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دینے کی خُوش خبری لے کر آیا ہوں۔‘‘ حضرت مریمؑ نہایت حیران اور پریشان ہوئیں اور تعجّب سے فرمایا’’ بھلا میرے ہاں بچّہ کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ ہی مَیں بدکار ہوں۔‘‘

حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا’’ ہاں! بات تو یہی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ یہ میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرتِ تخلیق کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔

اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ، آدمؑ کو مرد اور عورت کے بغیر اور تمہاری ماں، حوّا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ علیہ السّلام کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے، صرف بغیر مرد کے پیدا کرنا۔‘‘ دراصل، اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہیں، وہ جب جہاں اور جس طرح چاہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ بے جان چیز سے جان دار کو پیدا کر سکتے ہیں اور جان دار سے بے جان۔

حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش

بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے آپؑ پر پھونک ماری اور وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مریمؑ کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے لگے۔

جیسے جیسے پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپؑ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو آپؑ لوگوں کے خوف سے بیتُ المقدِس سے تقریباً 9 میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی’’ کوہِ سراۃ‘‘ کی جانب چلی گئیں۔

یہی وہ جگہ ہے، جو بعد میں’’ بیت اللحم‘‘ کہلائی۔ جب دردِ زہ شروع ہوا، تو آپؑ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ زچگی کی تکلیف کی شدّت اور دُنیا والوں کے خوف نے آب دیدہ کر دیا۔

کہنے لگیں’’کاش! مَیں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔‘‘

علماء فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے موت کی آرزو اس لیے کی کہ وہ عزیز و اقارب، خاندان، برادری اور لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکیں گی، جب کہ کوئی اُن کی صداقت کی تصدیق کرنے والا بھی نہیں۔ اُن کی شہرت ایک نیک، پارسا اور زاہدہ کے طور پر تھی۔لہٰذا، اُن کے لیے یہ تصوّر ہی بڑا رُوح فرسا اور تکلیف دہ تھا کہ لوگ اُنہیں بدکار سمجھیں۔

آغوشِ مادر میں کلام

ابھی حضرت مریمؑ اَن جانے اندیشوں اور وسوسوں میں گِھری ہوئی تھیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے وادی کے نیچے سے آواز دی’’اے مریمؑ! پریشان نہ ہوں، تمہارے پروردگار نے تمہارے قدموں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ذرا اس کھجور کے درخت کو ہلائو، دیکھو یہ تمہارے سامنے تر و تازہ کھجوریں گرا دے گا۔ اب تم اطمینان کے ساتھ یہ تازہ کھجوریں کھائو، چشمے کا پانی پیو اور بچّے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو اور اگر تمہیں کوئی انسان نظر پڑ جائے، تو اشارے سے کہہ دینا کہ’’ مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے، مَیں آج کسی شخص سے بات نہیں کر سکتی۔‘‘

اُس وقت کی شریعت میں روزے میں کھانے پینے کے ساتھ بولنا بھی منع تھا۔ حضرت جبرائیلؑ کے اس پیغام سے حضرت مریمؑ کو اطمینان اور تسلّی ہوگئی کہ اب میرا رَبّ مجھے بدنامی اور رُسوائی سے بچا لے گا۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ولادت کے چالیس روز بعد جب طہارت ہو چُکی، تو حضرت مریمؑ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں۔

لوگ نومولود بچّے کو گود میں دیکھ کر حیران رہ گئے اور بدگمان ہو کر بولے’’اے مریمؑ! یہ تو، تُو نے بڑے گناہ کا کام کیا، نہ تو تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ حضرت مریمؑ نے جبرائیل امینؑ کی ہدایت کے مطابق بچّے کی طرف اشارہ کر دیا۔ روایت میں ہے کہ جب خاندان نے حضرت مریمؑ کو ملامت کرنا شروع کیا، تو اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام دُودھ پی رہے تھے۔

جب اُنہوں نے لوگوں کی ملامت بَھری باتیں سُنیں، تو دُودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر اُن کی جانب متوجّہ ہوئے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’انّی عبداللہ‘‘ یعنی’’ مَیں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ اور پھر اللہ کی طرف سے نبوّت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔

اُس کے بعد فرمایا’’ اللہ نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا پابند بنایا اور جب تک مَیں زندہ ہوں، مجھے اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور بدبخت نہیں بنایا اور اللہ کی سلامتی ہے مجھ پر، جب مَیں پیدا ہوا، جب مَیں مروں گا اور جب دوبارہ زندہ کرکے اُٹھایا جائوں گا‘‘(سورۂ مریم)۔ لوگوں نے جب نومولود بچّے کے منہ سے یہ الفاظ سُنے، تو حیرت زدہ رہ گئے اور اُنہیں یقین ہوگیا کہ بی بی مریمؑ پاک دامن ہیں اور یہ بچّہ، اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس واقعے کے بعد خاندان اور بنی اسرائیل کے سمجھ دار لوگ دونوں کی بڑی عزّت کرنے لگے اور اُنہیں خیر و برکت کا باعث سمجھنے لگے۔

حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا مقام

جودیہ کے پہاڑوں میں واقع’’ بیتُ اللحم‘‘ فلسطین کا ایک بہت بڑا گاؤں ہے، جو سطحِ سمندر سے 800 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ بیتُ اللحم کے جنوب میں چند میل کی مسافت پر کوہِ سراۃ (کوہِ ساعیر) کے دامن میں وہ تاریخی مقام ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے ۔

اس غار سے متصل کونے میں ایک پتھر نصب ہے، جس میں ایک گول سوراخ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ کھجور کا وہ درخت تھا، جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ذکر ہے کہ’’ اے مریمؑ! اسے ہلائو، تو کھجوریں گریں گی‘‘ (نشاناتِ ارضِ قرآن ص 211)۔

مِصر کی جانب ہجرت

حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ گود میں بات چیت کے بعد کلام کرنے سے رُک گئے تھے، پھر جب لڑکپن کو چُھونے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان پر حکمت اور دانائی کی باتیں جاری کر دیں۔ جب آپؑ سات سال کے ہوئے، تو حضرت مریمؑ نے آپؑ کو معلّم کے پاس درس گاہ میں بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچپن ہی میں اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے تھے۔

یہ بات یہودیوں میں پھیل گئی، تو اُنہوں نے آپؑ کے خلاف منصوبے بنانے شروع کر دیئے، حالاں کہ آپؑ کے خاندان کے لوگ آپؑ کی اور حضرت مریمؑ کی بہت عزّت کرتے تھے۔ یہود نے آپؑ اور آپؑ کی والدہ کے متعلق طرح طرح کے اعتراضات شروع کر دیئے۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السّلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث حضرت زکریا علیہ السّلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ ردّوبدل کر لیا تھا۔

اُن کے عقائد و اعمال دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جب بیتُ المقدِس کے حالات خراب ہونے لگے، تو حضرت مریمؑ آپؑ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مِصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مِصر سے واپس ہوئیں۔ پھر اللہ نے آپؑ کو انجیل عطا فرمائی اور تورات کی تعلیم دی۔ اس کے علاوہ، مُردوں کو زندہ کرنا، کوڑھیوں کو صحیح کرنا اور دُوسرے معجزات سے نوازا۔

معجزات، انعامات اور فضیلتیں

اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اُن کی صداقت، افضلیت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔ مٹّی کا پرندہ بناتے، اُس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔

پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اُس کی بینائی ایسے آ جاتی، جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرتے۔ مُردوں کو زندہ کر دیتے۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتا دیتے۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھا لیا۔

قیامت کے قریب دوبارہ دُنیا میں تشریف لائیں گے اور لوگوں سے کلام کریں گے، جس کا اشارہ سورۂ آلِ عمران میں ہے کہ’’ ماں کی گود میں بھی اور اُدھیڑ عُمر میں بھی کلام کریں گے۔‘‘ جب آپؑ کو دُنیا میں دوبارہ بھیجا جائے گا، تو آپؑ اُمّتِ محمّدیہﷺ کی قیادت کے لیے بہ حیثیت خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمتی کے تشریف لائیں گے۔ آپؑ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ دجّال اور خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ ڈالیں گے۔ زمین میں اَمن و برکت ہوگی اور دُنیا میں صرف اسلام رہ جائے گا۔

حواری کون تھے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچّے۔ آپؑ شہر شہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے، لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت آپؑ کو اذیّت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔ دراصل، بنی اسرائیل آپؑ کی نبوّت کے منکر رہے۔ البتہ اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار اور ہم درد و غم خوار تھے۔ وہ آپؑ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے۔ قرآنِ کریم نے اُنہیں’’ حواری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کرلیا، تو کہنے لگے’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا’’ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں(آپؑ کے) مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپؑ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں‘‘ (سوۂ آلِ عمران، 25)۔ لفظ ’’حواری‘‘ حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنیٰ’’ سفیدی‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مخلص ساتھیوں کو یہ لقب دیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔

حواریوں کی فرمائش

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور جب حواریوں نے کہا’’ اے عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ! کیا آپؑ کا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل کرے؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ اگر ایمان رکھتے ہو، تو اللہ سے ڈرو۔‘‘ وہ بولے’’ ہماری خواہش ہے کہ ہم اُس میں سے کھائیں اور ہمارے دِل تسلّی پائیں۔ اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے سچ کہا اور ہم اس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں۔‘‘ حضرت عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے دُعا کی’’ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے(وہ دن) عید قرار پائے، یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے، تو بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘

اللہ نے فرمایا’’ میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا، لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا، اُسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہلِ عالَم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا‘‘ (سورۃ المائدہ آیات 111 تا 115)۔ 

ان آیاتِ مبارکہ میں خوان یا طعام کے لیے’’مائدہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مائدہ، ایسے دسترخوان کو کہتے ہیں، جس پر کھانا چُنا جاتا ہے۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ آسمان سے دسترخوان اُترا،جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ اُن کو حکم ملا کہ خیانت نہ کریں، ذخیرہ نہ کریں اور نہ کل کے لیے اُٹھا رکھیں، لیکن اُنہوں نے خیانت کی، ذخیرہ کیا اور اُٹھا کر رکھا، تو وہ بندروں اور سؤروں میں تبدیل ہوگئے‘‘ (ابنِ کثیرؒ)۔

عقیدۂ تثلیث

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’آپؐ کہہ دیجیے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے۔ (وہ) معبودِ برحق بے نیاز ہے۔ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہم سَر نہیں‘‘ (سورۃ الاخلاص)۔نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور رُوح القدس، یعنی حضرت جبرائیلؑ ہی کو شریک کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حضرت مریمؑ کو بھی خدا کا درجہ دے دیا۔ دراصل، نصاریٰ بھی یہودیوں کی طرح مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ اُس وقت ان میں تین فرقے تھے ایک قسطوریہ ،جو عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا کا بیٹا کہتا تھا، دُوسرا یعقوبیہ ،جو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کے ساتھ متحد مانتے تھے۔ تیسرا ملکانیہ، جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو تین خدائوں میں سے ایک مانتے تھے۔ نزولِ قرآن کے وقت بھی نصاریٰ فرقوں میں تقسیم تھے۔ اُن کا عقیدہ تین الگ الگ اُصولوں پر مبنی تھا۔ ایک فرقہ کہتا تھا کہ مسیح عینِ خدا ہیں اور خدا ہی بہ شکلِ مسیح دُنیا میں اُترا۔

دُوسرے فرقے کا کہنا تھا کہ مسیح اِبنُ اللہ ہیں اور تیسرا فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے، یعنی باپ، بیٹا اور مریمؑ۔ اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے۔ دوسرا گروہ حضرت مریمؑ کی جگہ رُوح القدس کو شامل کرتا تھا۔ غرض وہ حضرت مسیح ؑکو ثالث ثلاثہ تسلیم کرتے تھے(معارف القرآن ج 2 ،ص 618)۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا’’اے اہلِ کتاب، اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سِوا کچھ نہ کہو۔ مسیح ؑ، مریمؑ کے بیٹے، اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ تھے۔ اور تین خدا کہنے سے باز آ جائو۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ ہی معبودِ واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ جو کچھ زمین، آسمانوں میں ہے، سب اسی کا ہے اور اللہ کارساز ہے‘‘(سورۃ النساء آیت 171)۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد ہے’’یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا’’ مسیح ؑابنِ مریمؑ ہی اللہ ہیں۔‘‘ 

آپؐ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ؑ، اُن کی والدہ اور رُوئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے، تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ اختیار رکھتا ہو‘‘(آیت 17)۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ ایسا کہنے والوں کو عذابِ الٰہی یاد کرواتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور کہتے ہیں کہ اللہ بیٹا رکھتا ہے۔ تم بہت بُری بات (زبان پر) لاتے ہو۔ قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں کہ وہ اللہ کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں اور اللہ کو شایانِ شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے‘‘(آیات 88-92)۔

قتل کا منصوبہ

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام یہود و نصاریٰ کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو توحیدِ حق کی تعلیم دیتے رہے اور اُنہیں وعظ و نصیحت فرماتے رہے، لیکن یہودیوں نے نہ صرف اُن کی تکذیب کی، بلکہ مسلسل اہانت بھی کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نبوّت کو تین سال ہی کا عرصہ گزرا تھا کہ بنی اسرائیل نے آپؑ کو اپنے لیے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہوئے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ قرآنِ کریم میں ہے’’اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے‘‘(سورۂ آلِ عمران 54)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیرِ نگیں تھا، یہاں اُن کی طرف سے جو حکم ران مقرّر تھا، وہ کافر تھا۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے خلاف اُس کے کان بھر دیئے۔ چناں چہ اُس نے یہودیوں کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہ حفاظت آسمان پر اُٹھا لیا اور اُن کی جگہ اُن کے ہم شکل کو سولی دے دی گئی۔ تاہم، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اُنھوں نے مسیح ؑابنِ مریمؑ کو سولی پر لٹکایا۔

آسمان پر اُٹھا لیا گیا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ مسیح علیہ السّلام کو، جو اللہ کے پیغمبر تھے، قتل کر دیا ہے، حالاں کہ اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھایا، بلکہ اُن کے لیے اُن (عیسیٰ ؑ) کا مشابہ بنا دیا گیا تھا۔ جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں، وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیرویٔ ظن کے سِوا اُن کو اس کا مطلق علم نہیں اور اُنہوں نے عیسیٰ علیہ السّلام کو یقیناً قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اُن کو اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘(سورۃ النساء 158-157)۔

حضرت ضحاکؒ فرماتے ہیں کہ قصّہ یوں پیش آیا کہ جب یہود نے حضرت مسیح علیہ السّلام کے قتل کا ارادہ کیا، تو آپؑ کے حواری ایک جگہ جمع ہوگئے۔ حضرت مسیح علیہ السّلام بھی اُن کے پاس تشریف لے آئے۔ ابلیس نے یہود کے اُس دستے کو، جو آپؑ کے قتل کے لیے تیار کھڑا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا پتا بتایا، اس طرح چار ہزار افراد نے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے حواریّین سے فرمایا’’ تم میں سے کوئی شخص اس کے لیے آمادہ ہے کہ وہ باہر نکلے اور اُسے قتل کر دیا جائے اور پھر جنّت میں وہ میرے ساتھ ہو۔‘‘ ایک شخص نے اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ آپؑ نے اُسے اپنا کُرتا، عمامہ عطا فرمایا۔ پھر اس پر آپؑ کی مشابہت ڈال دی گئی۔ اور جب وہ باہر آیا، تو یہود اُسے پکڑ کر لے گئے اور سولی پر چڑھا دیا، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اُٹھا لیا‘‘ (قرطبی)۔

قیامت سے پہلے دوبارہ نزول

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا دوبارہ نزول، اُمّتِ مسلمہ کی قیادت و رہنمائی، فتنۂ دجال کی سرکوبی، خنزیر کا قتل، صلیب کا توڑنا، یاجوج ماجوج کا خاتمہ، فسق و فجور کا سدّ ِباب، امن و امان کا قیام، اسلام کا بول بالا، قُربِ قیامت کی وہ حقیقتیں ہیں کہ جن کے ظہور کا تذکرہ احادیث کی تمام کُتب، بہ شمول صحیح بخاری اور مسلم شریف میں موجود ہے۔ امام ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے راویان میں حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سمیت دیگر صحابۂ کرام شامل ہیں۔ ان احادیث میں آپؑ کے نزول کی تفصیل اور جگہ کا بیان ہے۔ آپؑ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس اُس وقت اُتریں گے، جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔

اُن کے دَور میں سب مسلمان ہو جائیں گے۔ دجال کا قتل بھی آپؑ کے ہاتھوں ہوگا اور یاجوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپؑ کی موجودگی میں ہوگا۔ بالاخر آپؑ ہی کی بددُعا سے اُن کی ہلاکت ہوگی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ قسم ہے اُس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابنِ مریمؑ حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اُٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اُسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا (یعنی صدقہ اور خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا)، حتیٰ کہ ایک سجدہ دُنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا‘‘(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء)۔

اللہ تعالیٰ کے پانچ وعدے

سورۂ آلِ عمران کی آیت 55 میں اللہ عزّ و جل نے اپنے رسول، حضرت عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ سے پانچ وعدے فرمائے۔

سب سے پہلا وعدہ یہ تھا کہ اُن کی موت یہودیوں کے ہاتھوں قتل کے ذریعے نہیں ہوگی، بلکہ طبعی طور پر وقتِ مقرّرہ پر ہوگی اور یقیناً وہ وقت قیامت کے نزدیک آئے گا، جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے۔

دوسرا وعدہ عالمِ بالا کی طرف اُٹھا لینے کا تھا۔ یہ اُسی وقت پورا کر دیا گیا۔

تیسرا وعدہ اُنھیں دشمنوں کی تہمتوں سے پاک کرنے کا تھا۔ وہ اس طرح پورا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہود کے سب الزامات کی تردید کردی۔

چوتھا وعدہ، آپؑ کے تابع داروں کو آپؑ کے منکرین پر قیامت تک غالب رکھنے کا تھا، چناں چہ تاریخ گواہ ہے کہ نصاریٰ اور مسلمان غالب رہے اور اُن ہی کی حکومتیں دُنیا میں قائم ہوئیں اور رہیں گی۔

پانچواں وعدہ، قیامت کے روز اُن مذہبی اختلافات کا فیصلہ فرمانے کا ہے ، جو آپؑ سے متعلق ہیں۔

حُلیہ مبارک

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جس رات مجھے(آسمانوں پر) لے جایا گیا، تو مَیں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے ملاقات کی، وہ متحرّک اور جوش و جذبات والے تھے، اُن کے بال کچھ گھنگھریالے تھے، گویا شنوء(قبیلے) کے لوگوں میں سے ہوں۔ مَیں نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے ملاقات کی، وہ درمیانے قد، سُرخ و سفید چہرے والے تھے(اور یوں لگ رہے تھے) گویا غسل خانے سے(نہا کر) نکلے ہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھا اور مَیں اُن کی اولاد میں سب سے زیادہ اُن سے مشابہ ہوں‘‘(صحیح بخاری)۔ مسندِ احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ دُنیا و آخرت میں عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ سے سب سے زیادہ قریب تر میں ہوں، کیوں کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔ جب وہ اُتریں گے، تم اُنھیں دیکھو، تو پہچان لینا، درمیانے قد کے حامل، مائل بہ سُرخی و سپیدی، بَھرے جسم والے ہیں، گویا سَر سے پانی ٹپک رہا ہے، اگرچہ تَری نیچے تک نہیں پہنچتی، وہ تمام اُمّتوں کو ختم کر دیں گے، حتیٰ کہ اُن کے زمانے میں صرف اسلام رہ جائے گا اور زمین پر ایسی خوش حالی، برکت اور امن ہوگا کہ اونٹ اور شیر، چیتے اور گائیں، بھیڑ اور بکریاں ایک ساتھ چَریں گے۔ بچّے، بچیاں سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ ایک دوسرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، جب تک اللہ نے چاہا، یوں ہی ہوتا رہے گا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام وفات فرمائیں گے، تو مسلمان اُن پر نماز پڑھ کر اُنھیں دفنائیں گے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام چالیس سال تک دُنیا میں رہیں گے۔ آپؑ کو روضۂ اطہر میں دفنایا جائے گا، جہاں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔

قرآنِ پاک میں سب سے زیادہ ذکر

مفتی محمّد شفیعؒ تحریر فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں انبیائے کرامؑ میں سے سب سے زیادہ ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کیا گیا ہے۔ سورۂ آلِ عمران کے گیارہویں رکوع میں حق تعالیٰ نے انبیائے سابقینؑ کا ذکر ایک ہی آیت میں اجمالاً کرنے پر اکتفا فرمایا۔ اُس کے بعد تقریباً تین رکوع اور بائیس آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور اُن کے خاندان کا ذکر کیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نانی کا ذکر، اُن کی نذر کا بیان، والدہ کی پیدائش، اُن کا نام، تربیت کا تفصیلی ذکر، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بطنِ مادر میں آنا، پھر ولادت کا مفصّل حال، ولادت کے بعد ماں نے کیا کھایا، پیا اُس کا ذکر، اپنے خاندان میں بچّے کو لے کر آنا، اُن کے طعن و تشنیع، نومولود مسیح ؑکو بہ طورِ معجزہ گویائی عطا ہونا، قوم کو دعوت دینا، اُن کی مخالفت، حواریّین کی امداد، یہودیوں کا نرغہ، زندہ آسمان پر اُٹھایا جانا وغیرہ۔ پھر احادیثِ متواترہ میں اُن کی مزید صفات، شکل و صورت، ہیئت، لباس وغیرہ کی پوری تفصیلات۔ یہ ایسے حالات ہیں کہ قرآن و حدیث میں کسی نبی اور رسول کے حالات اس تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے۔‘‘ (معارف القرآن ج 2، ص 80)۔

تحریر: محمود میاں نجمی، جنگ سنڈے میگزین

Post Bottom Ad